Aye Umr-e-Rawan
This blog "Aye Umr-e-Rawan" is an archive of my Sunday "Jehan Pakistan" columns (http://www.jehanpakistan.com/E-Paper/). Some of these columns may sound like my own story. -- Mushtaque Siddiqi
Sunday, December 23, 2018
Saturday, August 12, 2017
کیا ٹکرا سے بچا جا سکتا ہے؟
#۳
اظہار خیال
---------
کیا ٹکراو سے بچا جاسکتا ہے؟
-- مشتاق صدیقی
آواز، لب و لہجے اور چہرے پہ چھائی سنجیدگی (اداسی) سے لگتا ہے کہ نواز شریف صاحب بہت ہی زیادہ ناراض ہیں-
میری سمجھ کے مطابق، وہ فوج سے بہت ہی زیادہ ناراض لگتے ہیں؛ عدلیہ اور مخالف جماعتوں کے لیڈروں سے بھی ان کی ناراضگی ہے --- لیکن جو ان سب سے بھی زیادہ تشویش کی بات ہے وہ ان کی وہ ناراضگی ہے جو انہیں اپنی ہی پارٹی کے بے شمار لیڈران سے ہے!
ایک طرح دیکھیں تو وہ ایک ایسے سابق سیاست داں نظر آتے ہیں جن سے ان کا اقتدار بھی لے لیا گیا ہو اور ان کی پارٹی بھی ! وہ بالکل ہی تنہا ہو گئےہیں-
ریلی شروع ہوتے ہی پارٹی میں پیدہ ہونے والی یہ دراڑ زیادہ گہری اور نمایاں ہوتی چلی گئی ہے- ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے بےشمار لیڈران کو اپنے آپ سے بہت دور کر دیا - جبکہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو رفتہ رفتہ خود ہی ان سے دور ہوتے چلے گئے --
اب اس کنٹینر میں پاکستان کے اس معزول وزیر اعظم کا واحد قابل اعتماد اور کارآمد ساتھی ایک ہی نظر آتا ہے، اور وہ ہے ڈان لیک کیس کا شکار، معطل وزیر اطلاعات پرویز رشید!
ویسے تو کنٹینر کے اندر سعد رفیق بھی ہیں اور کنٹینر سے باہر عابد شیر علی بھی لوگوں کو محظوظ کرتے نظر آتے ہیں، لیکن یا تو انکا کوئی رول متعین نہیں کیا گیا یا انھیں محض پیغام رسانی تک محدود رکھا گیا ہے-
اس لئے کہ جب نواز شریف صاحب کی غصہ اور غیض و غضب میں ڈوبی تقریر کا مرحلہ آتا ہے تو ان کے قریب صرف پرویز رشید صاحب ہی ہوتے ہیں اور ان ہی کا مشورہ، اور ان ہی کی چٹیں کام آتی ہیں -
پچھلے ایک blog میں میں نے ایک خدشے کا اظہار کیا تھا جو بدستور مو جود ہے- ناراضگی کا اظہار اگر سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کر کیا گیا تو اداروں کے درمیان ٹکراو کا خدشہ ہر دم موجود رہتا ہےاور اب بھی موجود ہے-
کبھی کبھی عدلیہ کے خلاف غصہ کا اظہار بھی حدود و قیود سے نکلتا نظر آتا ہے اور contempt کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے- نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں رہے؛ نواز شریف صاحب اب اپنی پارٹی کے عہدے دار بلکہ رکن بھی نہیں رہے؛ نواز شریف صاحب پر متعدد الزامات عائد ہیں جو سپریم کورٹ نے عائد کئے ہیں جن کی تحقیق ہونی ہے-- چند وکلا کے خیال میں تو ان میں سے کئی کیسز ایسے ہیں جن میں انھیں فوری ضمانتیں کروانے کی ضرورت ہے۔
لیکن ہم یہ دیکھ رہےہیں کہ قانونی چارہ جوئی کرنے کی بجائے نواز شریف صاحب اپنی قانونی لڑائی پنجاب کی سڑکوں پر لیجانے کا فیصلہ کر چکے ہیں -
خدشہ یہ ہے کہ ٹکراو پیدا ہوگا- اداروں کے درمیان بھی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان بھی- اگر بات یہیں رک جائے تو کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے!
##
اظہار خیال
---------
کیا ٹکراو سے بچا جاسکتا ہے؟
-- مشتاق صدیقی
آواز، لب و لہجے اور چہرے پہ چھائی سنجیدگی (اداسی) سے لگتا ہے کہ نواز شریف صاحب بہت ہی زیادہ ناراض ہیں-
میری سمجھ کے مطابق، وہ فوج سے بہت ہی زیادہ ناراض لگتے ہیں؛ عدلیہ اور مخالف جماعتوں کے لیڈروں سے بھی ان کی ناراضگی ہے --- لیکن جو ان سب سے بھی زیادہ تشویش کی بات ہے وہ ان کی وہ ناراضگی ہے جو انہیں اپنی ہی پارٹی کے بے شمار لیڈران سے ہے!
ایک طرح دیکھیں تو وہ ایک ایسے سابق سیاست داں نظر آتے ہیں جن سے ان کا اقتدار بھی لے لیا گیا ہو اور ان کی پارٹی بھی ! وہ بالکل ہی تنہا ہو گئےہیں-
ریلی شروع ہوتے ہی پارٹی میں پیدہ ہونے والی یہ دراڑ زیادہ گہری اور نمایاں ہوتی چلی گئی ہے- ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے بےشمار لیڈران کو اپنے آپ سے بہت دور کر دیا - جبکہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو رفتہ رفتہ خود ہی ان سے دور ہوتے چلے گئے --
اب اس کنٹینر میں پاکستان کے اس معزول وزیر اعظم کا واحد قابل اعتماد اور کارآمد ساتھی ایک ہی نظر آتا ہے، اور وہ ہے ڈان لیک کیس کا شکار، معطل وزیر اطلاعات پرویز رشید!
ویسے تو کنٹینر کے اندر سعد رفیق بھی ہیں اور کنٹینر سے باہر عابد شیر علی بھی لوگوں کو محظوظ کرتے نظر آتے ہیں، لیکن یا تو انکا کوئی رول متعین نہیں کیا گیا یا انھیں محض پیغام رسانی تک محدود رکھا گیا ہے-
اس لئے کہ جب نواز شریف صاحب کی غصہ اور غیض و غضب میں ڈوبی تقریر کا مرحلہ آتا ہے تو ان کے قریب صرف پرویز رشید صاحب ہی ہوتے ہیں اور ان ہی کا مشورہ، اور ان ہی کی چٹیں کام آتی ہیں -
پچھلے ایک blog میں میں نے ایک خدشے کا اظہار کیا تھا جو بدستور مو جود ہے- ناراضگی کا اظہار اگر سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کر کیا گیا تو اداروں کے درمیان ٹکراو کا خدشہ ہر دم موجود رہتا ہےاور اب بھی موجود ہے-
کبھی کبھی عدلیہ کے خلاف غصہ کا اظہار بھی حدود و قیود سے نکلتا نظر آتا ہے اور contempt کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے- نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں رہے؛ نواز شریف صاحب اب اپنی پارٹی کے عہدے دار بلکہ رکن بھی نہیں رہے؛ نواز شریف صاحب پر متعدد الزامات عائد ہیں جو سپریم کورٹ نے عائد کئے ہیں جن کی تحقیق ہونی ہے-- چند وکلا کے خیال میں تو ان میں سے کئی کیسز ایسے ہیں جن میں انھیں فوری ضمانتیں کروانے کی ضرورت ہے۔
لیکن ہم یہ دیکھ رہےہیں کہ قانونی چارہ جوئی کرنے کی بجائے نواز شریف صاحب اپنی قانونی لڑائی پنجاب کی سڑکوں پر لیجانے کا فیصلہ کر چکے ہیں -
خدشہ یہ ہے کہ ٹکراو پیدا ہوگا- اداروں کے درمیان بھی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان بھی- اگر بات یہیں رک جائے تو کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے!
##
یہ کیا ہورہا ہے؟
# ۲
اظہار خیال
یہ کیا ہورہا ہے؟
کچھ لوگوں نے دعوی' کیا کہ نواز شریف صاحب کے گزشتہ کل کے جلوس میں کل پانچ سو گاڑیاں تھیں-- کسی ایک وقت شاید 500 گاڑیاں بھی رہی ہونگی لیکن میں نے ایک مرحلہ پر۹۰۰ گاڑیوں کی کئی رپورٹیں بھی دیکھی ہیں (ان میں سے ایک رپورٹ تو جیو چینل کی بھی تھی) -- اگر ایک گاڑی میں اوسطا" تین افراد بھی بیٹھے ہوں تو ساتھ چلنے والوں کی کل تعداد ۲۵ سو کے لگ بھگ تو ضرور بنتی ہے -
جس جگہ سے قافلہ گزر رہا تھا وہاں محلہ کے ہزار دو ہزار لوگ بھی کھڑے ہونگے --
اسلئے کہ مری روڈ پر؛ خاص طور پر کمیٹی چوک اور لیاقت باغ کے علاقہ میں کسی بڑے crowd کے آنے کی توقع اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ وہ پی پی پی کے کٹّر جیالوں کاعلاقہ ہے-
اب ذکر گوجرانوالہ کے ایک ویڈیو کلپ کا--
https://twitter.com/SAMAATV/status/895348786846994442?s=08
گوجرانوالہ سے رہورٹ آئی کہ وہاں لوگوں کی دلچسپی کو زندہ رکھنے اور معزول وزیر اعظم اور معطل سربراہ جماعت سے ان کی محبت کے جزبہ کو اجاگر کرنے کے لئے نت نئے اور انوکھے طریقے اپنائے جا رہے ہیں -
کرنسی نوٹ کی گڈیاں ہوا میں اچھالنا ایک اچھوتا مگر مہنگا طریقہ ہے- ظاہر ہے پیسہ انکی جیب سے نہیں جارہا ہوگا ورنہ گڈی ہوا میں اچھالتے وقت ہاتھ میں تھوڑی بہت لغزش ضرور آجاتی؛ ڈپٹی میئر کے دست و بازو میں یہ عجب اعتماد اور کمال تمکنت پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ یہ عوام ہی کا پیسہ ہے جو اب ان کو لوٹا یا جارہا ہے!!
ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی: جب یہ پتہ ہے کہ نواز شریف صاحب گوجرانوالہ تین یا چار دنوں بعد پہنچیں گے تو آج ہی سے نوٹوں کی گڈیاں ہوا میں کیوں اچھالی جارہی ہیں ؟ ان کے آتے آتے
تو مقامی بینکوں کا دیوالیہ نکل جائے گا؟
ان تمام باتوں سے قطع نظر سیاست میں پیسے کا ایسا بھونڈا اور بے دریغ استعمال دیکھ کر ذہن میں یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ، یہ کیا ہورہا ہے؟ ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ اور یہ بھی کہ ہمیں یہاں تک کن کن لوگوں نے پہنچایا ہے؟
##
اظہار خیال
یہ کیا ہورہا ہے؟
کچھ لوگوں نے دعوی' کیا کہ نواز شریف صاحب کے گزشتہ کل کے جلوس میں کل پانچ سو گاڑیاں تھیں-- کسی ایک وقت شاید 500 گاڑیاں بھی رہی ہونگی لیکن میں نے ایک مرحلہ پر۹۰۰ گاڑیوں کی کئی رپورٹیں بھی دیکھی ہیں (ان میں سے ایک رپورٹ تو جیو چینل کی بھی تھی) -- اگر ایک گاڑی میں اوسطا" تین افراد بھی بیٹھے ہوں تو ساتھ چلنے والوں کی کل تعداد ۲۵ سو کے لگ بھگ تو ضرور بنتی ہے -
جس جگہ سے قافلہ گزر رہا تھا وہاں محلہ کے ہزار دو ہزار لوگ بھی کھڑے ہونگے --
اسلئے کہ مری روڈ پر؛ خاص طور پر کمیٹی چوک اور لیاقت باغ کے علاقہ میں کسی بڑے crowd کے آنے کی توقع اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ وہ پی پی پی کے کٹّر جیالوں کاعلاقہ ہے-
اب ذکر گوجرانوالہ کے ایک ویڈیو کلپ کا--
https://twitter.com/SAMAATV/status/895348786846994442?s=08
گوجرانوالہ سے رہورٹ آئی کہ وہاں لوگوں کی دلچسپی کو زندہ رکھنے اور معزول وزیر اعظم اور معطل سربراہ جماعت سے ان کی محبت کے جزبہ کو اجاگر کرنے کے لئے نت نئے اور انوکھے طریقے اپنائے جا رہے ہیں -
کرنسی نوٹ کی گڈیاں ہوا میں اچھالنا ایک اچھوتا مگر مہنگا طریقہ ہے- ظاہر ہے پیسہ انکی جیب سے نہیں جارہا ہوگا ورنہ گڈی ہوا میں اچھالتے وقت ہاتھ میں تھوڑی بہت لغزش ضرور آجاتی؛ ڈپٹی میئر کے دست و بازو میں یہ عجب اعتماد اور کمال تمکنت پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ یہ عوام ہی کا پیسہ ہے جو اب ان کو لوٹا یا جارہا ہے!!
ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی: جب یہ پتہ ہے کہ نواز شریف صاحب گوجرانوالہ تین یا چار دنوں بعد پہنچیں گے تو آج ہی سے نوٹوں کی گڈیاں ہوا میں کیوں اچھالی جارہی ہیں ؟ ان کے آتے آتے
تو مقامی بینکوں کا دیوالیہ نکل جائے گا؟
ان تمام باتوں سے قطع نظر سیاست میں پیسے کا ایسا بھونڈا اور بے دریغ استعمال دیکھ کر ذہن میں یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ، یہ کیا ہورہا ہے؟ ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ اور یہ بھی کہ ہمیں یہاں تک کن کن لوگوں نے پہنچایا ہے؟
##
Tuesday, August 8, 2017
کیا ہونے والا ہے؟
اظہار خیال
---------
کیا ہونے والا ہے؟
-- مشتاق صدیقی
سیاست، پیار محبت کے ساتھ افہام و تفہیم کے ذریعہ اپنے سیاسی ایجنڈے کے عین مطابق یا اسکے قریب تر رہتے ہوئے، سیاسی مخالفین سے بات چیت کے ذریعہ نتائج حاصل کرنے کانام ہے۔
بات نہ بن رہی ہو تو ایک خوبصورت موڑ دیکر، کوئی تلخی یا کشیدگی پیدا کئے بغیر اقتدارچھوڑ دیناچاہئے - اور دوسری جماعت سے کہنا چاہئے کہ آئے آپ حکومت بنا لیں! آئین کو پرکھنے اور بہتر بنانے کے یہی مرحلے ہوتے ہیں!
یہاں تو صورت حال وہ بھی نہیں ہے-- ملک میں آج بھی پارٹی کی اپنی ہی حکومت ہے!
جی ٹی روڈ کا عوامی کارڈ اس وقت کھیلا جاتا ہے جب ایک مکمل پلان موجود ہو-- اور اس میں جی ٹی روڈ پر آنے والے لو گوں کی جسمانی طاقت یا "کھچا کھچ بھری سڑک پر" حد نگاہ تک پھیلے "انسانوں کے سمندر" سے بننے والے منظر کے live ٹیلی کاسٹ سے"سیاسی طاقت" کا جو عملی مظاہرہ جنم لے اسکے استعمال کا پہلے سے تعین کر لیا گیا ہو اور اس کے لئے وقت اور حدود کا تعین بھی کر لیا گیا ہو ! اگر ایسا ہی ہے تو ضرور سڑکوں پر نکلیں (اگر اس سے عدالت کی توہین نہ ہوتی ہو)-
کیونکہ لگتا یہ ہے کہ گوجرانوالہ پہنچ کر ایک دوسرے سے یہ نہ پوچھ رہے ہوں کہ "اب کیا کریں؟"
اس کے علاوہ اگر جزبات قابو میں نہ رہے اور تقریروں میں کوئی ایسی بات منہ سے نکل جائے جس سے "سرخ لکیر" کی حرمت مجروح ہو، تو پھر کیا ہو؟
آگر عوام کا "ٹھاٹھیں مارتا سمندر" آپ کے قابو سے باہر نکل جائے تو کیا ہو!
ویسے بھی اگر اس مارچ کا مقصد عدالتی کاروائی کو روکنا ہے، تو یہ بات ناقابل فہم اور کچھ عجیب سی لگتی ہے!
اورچاگر نااہلی کا فیصلہ تبدیل کروانا مقصد ہے تو وہ تو صرف ایک اپیل کے ذریع ہی ہو پائے گا--- اور اس اپیل کے لئے پہلے آئین میں ایک ترمیم کرنی ہوگی؛ اور یہ دونوں ہی کام گوجرانوالہ یا لاہور کی سڑکوں پرنہیں ہو پائیں گے، اس کے لئے اسلام آباد آنا ہو گا -- جہاں دونوں ہی عمارتیں ریڈ زون میں ساتھ ساتھ کھڑی ہیں -
اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا، تو پھر اس عوامی مارچ کا مقصد؟
سپریم کورٹ کے 0-5 بنچ کے متفقہ فیصلہ کے نتیجے میں معزول کئے گئے ایک سابق وزیراعظم کی ان سیاسی سرگرمیوں کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنا مشکل ہی نظر آتاہے، ہاں (اللہ نہ کرے) منفی نتائج بے شمار نکل سکتے ہیں!
لیکن کیا پتہ میرے اندازے غلط ہوں؟
Thursday, May 30, 2013
CORRECTION in my May 11 "Election Day" column
CORRECTION
At two places, while talking about Mr Nawaz Sharif's landslide victory, I have mentioned the election year as 1979 which is not correct. Its my mistake. Please read it as "1997".
Thank you.
PS: I would also thank Shaukat Mehmood saheb for pointing this out to me. -- Mushtaque
At two places, while talking about Mr Nawaz Sharif's landslide victory, I have mentioned the election year as 1979 which is not correct. Its my mistake. Please read it as "1997".
Thank you.
PS: I would also thank Shaukat Mehmood saheb for pointing this out to me. -- Mushtaque
Sunday, May 19, 2013
Sunday, May 12, 2013
Subscribe to:
Posts (Atom)