#۳
اظہار خیال
---------
کیا ٹکراو سے بچا جاسکتا ہے؟
-- مشتاق صدیقی
آواز، لب و لہجے اور چہرے پہ چھائی سنجیدگی (اداسی) سے لگتا ہے کہ نواز شریف صاحب بہت ہی زیادہ ناراض ہیں-
میری سمجھ کے مطابق، وہ فوج سے بہت ہی زیادہ ناراض لگتے ہیں؛ عدلیہ اور مخالف جماعتوں کے لیڈروں سے بھی ان کی ناراضگی ہے --- لیکن جو ان سب سے بھی زیادہ تشویش کی بات ہے وہ ان کی وہ ناراضگی ہے جو انہیں اپنی ہی پارٹی کے بے شمار لیڈران سے ہے!
ایک طرح دیکھیں تو وہ ایک ایسے سابق سیاست داں نظر آتے ہیں جن سے ان کا اقتدار بھی لے لیا گیا ہو اور ان کی پارٹی بھی ! وہ بالکل ہی تنہا ہو گئےہیں-
ریلی شروع ہوتے ہی پارٹی میں پیدہ ہونے والی یہ دراڑ زیادہ گہری اور نمایاں ہوتی چلی گئی ہے- ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے بےشمار لیڈران کو اپنے آپ سے بہت دور کر دیا - جبکہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو رفتہ رفتہ خود ہی ان سے دور ہوتے چلے گئے --
اب اس کنٹینر میں پاکستان کے اس معزول وزیر اعظم کا واحد قابل اعتماد اور کارآمد ساتھی ایک ہی نظر آتا ہے، اور وہ ہے ڈان لیک کیس کا شکار، معطل وزیر اطلاعات پرویز رشید!
ویسے تو کنٹینر کے اندر سعد رفیق بھی ہیں اور کنٹینر سے باہر عابد شیر علی بھی لوگوں کو محظوظ کرتے نظر آتے ہیں، لیکن یا تو انکا کوئی رول متعین نہیں کیا گیا یا انھیں محض پیغام رسانی تک محدود رکھا گیا ہے-
اس لئے کہ جب نواز شریف صاحب کی غصہ اور غیض و غضب میں ڈوبی تقریر کا مرحلہ آتا ہے تو ان کے قریب صرف پرویز رشید صاحب ہی ہوتے ہیں اور ان ہی کا مشورہ، اور ان ہی کی چٹیں کام آتی ہیں -
پچھلے ایک blog میں میں نے ایک خدشے کا اظہار کیا تھا جو بدستور مو جود ہے- ناراضگی کا اظہار اگر سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کر کیا گیا تو اداروں کے درمیان ٹکراو کا خدشہ ہر دم موجود رہتا ہےاور اب بھی موجود ہے-
کبھی کبھی عدلیہ کے خلاف غصہ کا اظہار بھی حدود و قیود سے نکلتا نظر آتا ہے اور contempt کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے- نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں رہے؛ نواز شریف صاحب اب اپنی پارٹی کے عہدے دار بلکہ رکن بھی نہیں رہے؛ نواز شریف صاحب پر متعدد الزامات عائد ہیں جو سپریم کورٹ نے عائد کئے ہیں جن کی تحقیق ہونی ہے-- چند وکلا کے خیال میں تو ان میں سے کئی کیسز ایسے ہیں جن میں انھیں فوری ضمانتیں کروانے کی ضرورت ہے۔
لیکن ہم یہ دیکھ رہےہیں کہ قانونی چارہ جوئی کرنے کی بجائے نواز شریف صاحب اپنی قانونی لڑائی پنجاب کی سڑکوں پر لیجانے کا فیصلہ کر چکے ہیں -
خدشہ یہ ہے کہ ٹکراو پیدا ہوگا- اداروں کے درمیان بھی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان بھی- اگر بات یہیں رک جائے تو کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے!
##
اظہار خیال
---------
کیا ٹکراو سے بچا جاسکتا ہے؟
-- مشتاق صدیقی
آواز، لب و لہجے اور چہرے پہ چھائی سنجیدگی (اداسی) سے لگتا ہے کہ نواز شریف صاحب بہت ہی زیادہ ناراض ہیں-
میری سمجھ کے مطابق، وہ فوج سے بہت ہی زیادہ ناراض لگتے ہیں؛ عدلیہ اور مخالف جماعتوں کے لیڈروں سے بھی ان کی ناراضگی ہے --- لیکن جو ان سب سے بھی زیادہ تشویش کی بات ہے وہ ان کی وہ ناراضگی ہے جو انہیں اپنی ہی پارٹی کے بے شمار لیڈران سے ہے!
ایک طرح دیکھیں تو وہ ایک ایسے سابق سیاست داں نظر آتے ہیں جن سے ان کا اقتدار بھی لے لیا گیا ہو اور ان کی پارٹی بھی ! وہ بالکل ہی تنہا ہو گئےہیں-
ریلی شروع ہوتے ہی پارٹی میں پیدہ ہونے والی یہ دراڑ زیادہ گہری اور نمایاں ہوتی چلی گئی ہے- ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے بےشمار لیڈران کو اپنے آپ سے بہت دور کر دیا - جبکہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو رفتہ رفتہ خود ہی ان سے دور ہوتے چلے گئے --
اب اس کنٹینر میں پاکستان کے اس معزول وزیر اعظم کا واحد قابل اعتماد اور کارآمد ساتھی ایک ہی نظر آتا ہے، اور وہ ہے ڈان لیک کیس کا شکار، معطل وزیر اطلاعات پرویز رشید!
ویسے تو کنٹینر کے اندر سعد رفیق بھی ہیں اور کنٹینر سے باہر عابد شیر علی بھی لوگوں کو محظوظ کرتے نظر آتے ہیں، لیکن یا تو انکا کوئی رول متعین نہیں کیا گیا یا انھیں محض پیغام رسانی تک محدود رکھا گیا ہے-
اس لئے کہ جب نواز شریف صاحب کی غصہ اور غیض و غضب میں ڈوبی تقریر کا مرحلہ آتا ہے تو ان کے قریب صرف پرویز رشید صاحب ہی ہوتے ہیں اور ان ہی کا مشورہ، اور ان ہی کی چٹیں کام آتی ہیں -
پچھلے ایک blog میں میں نے ایک خدشے کا اظہار کیا تھا جو بدستور مو جود ہے- ناراضگی کا اظہار اگر سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کر کیا گیا تو اداروں کے درمیان ٹکراو کا خدشہ ہر دم موجود رہتا ہےاور اب بھی موجود ہے-
کبھی کبھی عدلیہ کے خلاف غصہ کا اظہار بھی حدود و قیود سے نکلتا نظر آتا ہے اور contempt کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے- نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں رہے؛ نواز شریف صاحب اب اپنی پارٹی کے عہدے دار بلکہ رکن بھی نہیں رہے؛ نواز شریف صاحب پر متعدد الزامات عائد ہیں جو سپریم کورٹ نے عائد کئے ہیں جن کی تحقیق ہونی ہے-- چند وکلا کے خیال میں تو ان میں سے کئی کیسز ایسے ہیں جن میں انھیں فوری ضمانتیں کروانے کی ضرورت ہے۔
لیکن ہم یہ دیکھ رہےہیں کہ قانونی چارہ جوئی کرنے کی بجائے نواز شریف صاحب اپنی قانونی لڑائی پنجاب کی سڑکوں پر لیجانے کا فیصلہ کر چکے ہیں -
خدشہ یہ ہے کہ ٹکراو پیدا ہوگا- اداروں کے درمیان بھی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان بھی- اگر بات یہیں رک جائے تو کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے!
##
No comments:
Post a Comment